Categories
Articles Pakistani Newspapers

An overview of Pakistan’s economy (by: Maham Fatiama)

[mks_button size=”medium” title=”By: Maham Fatiama” style=”squared” url=”#” target=”_self” bg_color=”#1e73be” txt_color=”#FFFFFF” icon=”” icon_type=”” nofollow=”1″]

The industrial sector of the country contributes to 20 percent of GDP. In 2018 it recorded a growth of 5.80% as compared to the growth of 5.43% last year

Pakistan is facing a financial crisis since its independence in 1947. There are many reasons but political crisis has always been a major one.

Currently, we are facing trade deficit and that is because of wrong financial policies of the past governments. That is also because certain experiments were done with the economy in the past which didn’t prove fruitful. For example, before 1970s Pakistan’s private sector was booming and companies were making profit hence making jobs vacancies. But, during the regime of Zulfiqar Ali Bhutto, Pakistani companies were nationalized and they came under the direct control of the government of Pakistan. Therefore many of the companies and businessmen shifted to other lands in the search of a level playing field.

Categories
Event

Extensive Session for CSS 2020 – 1 Year Customize Plan

Extensive Session for CSS 2020 – 1 Year Customize Plan

New Entry Registration Open

Al Bahria CSS Institute are launching a second session for CSS Aspirants who wish to crack CSS in their first attempt. It is an extensive program of 8 months where the academics have been divided into 3 phases.

1: The Basic Phase:

A two months phase where various foreign authored books will be covered along with daily news paper, Times Magazine and other important journals will be provided and covered in classes. Workshops on notes making and time management will be provided to ensure that students do not confuse themselves.

2: The Academics Phase:

Students will cover the syllabus of their optionals and compulsory subjects in this phase. The knowledge of the books which have already been red will be utilised in that phase and some other material will be recommended to ensure that the preparation is up to mark.

3: Revision and Test Sessions

A quick revision phase will ensure that all the knowledge which was imparted is to be revised under the supervision of our faculty. The students will revise their course and basics in this phase and a test session will start simultaneously inorder to ensure that the knowledge is now utilized practically. Detailed feedback will be provided in all the mock tests which will eventually lead to the grand tests. After Grand Tests, the students will be comprehensively prepared for the CSS-2020.

Only 20 seats are available on first come first serve basis.

No student will be entertained after the slots have been filled.

Register today by calling or WhatsApp at 03334438610, 03004469650

Best CSS Academy in Lahore[mks_button size=”medium” title=”Paid Content” style=”rounded” url=”http://www.csstimes.pk” target=”_blank” bg_color=”#000000″ txt_color=”#FFFFFF” icon=”” icon_type=”” nofollow=”0″]

Categories
Articles Pakistani Newspapers

Financial Access | Article by Shanza Faiq (First in CSS 2018)

OUR country’s social fabric is being frayed by a multitude of socioeconomic ills. While there is no single blanket approach to address every economic complaint, one crucial aspect that urgently needs to be addressed is the vulnerability of Pakistan’s women.

Categories
Articles CSS Tips Source Of Inspiration

CSS 2018 First Position Holder Shanza Faiq Success Story

First Position in CE-2018 (LUMS Alumna) Shanza Faiq

Very Missive Story of her successful past experience and academics

B.A-L.L.B., Class of 2016 has received a full tuition scholarship to pursue an L.L.M. in International Development Law and Human Rights from the University of Warwick. Along with this she has also been shortlisted for the Fulbright Scholarship.


Shanza Faiq success story is great inspiration for CSS-2020 Aspirants and recognition through Al-Bahria CSS Institute LAHORE, 9A, Shershah Block New Garden Town, Lahore. 03334438610 and 03004469650 www.facebook.com/ALBAHRIACSS


Shanza Faiq has received the prestigious Woman of Pakistan Scholarship at Warwick, which is awarded to one student every year. She received this scholarship due to her high CGPA, numerous extra-curricular activities, determination and desire to bring about a viable change for human rights law in Pakistan.

Categories
Articles Urdu Articles

’امریکی طالبان‘ کہے جانے والے جان واکر کون ہیں؟

Who is so-called “American Taliban” John Walker Lindh?

Born in Washington DC in 1981 and named after John Lennon, Lindh was raised a Catholic.

He dropped out of school and converted to Islam at the age of 16, moving to Yemen the next year to learn Arabic.

In 2000, he went to study in Pakistan and eventually travelled to Afghanistan in May 2001 to join the Taliban.


Who is so-called "American Taliban" John Walker Lindh?Who is so-called "American Taliban" John Walker Lindh?Who is so-called "American Taliban" John Walker Lindh?Who is so-called "American Taliban" John Walker Lindh?Who is so-called "American Taliban" John Walker Lindh?

Categories
General

آفریدی کی سوانح، جس میں کسی کو نہیں بخشا گیا

[pukhto]

Some key points from Shahid Afridi Autobiography Game Changer (Courtesy: Daily Dawn)

حال ہی میں جب میں شاہد آفریدی کی سوانح حیات ’گیم چینجر‘ پر ایک اسپورٹس صحافی کے ساتھ محو گفتگو تھا، تب انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ، ’آپ ایک ہی وقت میں مصباح الحق اور آفریدی کے مداح کیسے ہوسکتے ہیں؟ دونوں کی شخصیت میں تو کافی تضاد پایا جاتا ہے۔‘

بلاشبہ ان کی شخصیات متضاد ہیں۔ ایک کھلاڑی نفیس، محتاط، صاحبِ فکر اور ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ اپنے احساسات کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے جبکہ دوسرا کھلاڑی خاصا جذباتی، اپنی شخصیت میں بے ساختہ مزاج اور اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آفریدی کی کتاب میں مجھے چند بڑی ہی دلچسپ باتوں میں سے یہ ایک لگی جب انہوں نے بڑے آرام سے اس من گھڑت تصور کو دفن کردیا کہ جب وہ پاکستان ٹیم کے لیے کھیل رہے ہوتے تھے تب ایسا ہرگز نہیں تھا کہ کھلاڑیوں کے آپسی تعلقات کبھی اچھے نہیں ہوتے تھے۔

 

اس کتاب میں آفریدی نے مصباح الحق کی بطور ایک نفیس شخص تعریف کی ہے، لیکن واضح رہے کہ وہ کتاب میں اس غیر مشروط طریقے سے دیگر کھلاڑیوں کی تعریف نہیں کررہے۔

وجاہت ایس خان کے ساتھ لکھی گئی گیم چینجر پڑھنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ کتاب کے بہاؤ کی رفتار آفریدی کے بلے بازی جتنی ہی تیز ہے، یعنی تباہ کن مگر ہمیشہ خطرے کو دعوت دینے والی۔

آفریدی کا اپنی بات کہنے کا طریقہ کچھ ایسا ہی ہے یعنی جلدبازی سے بھرپور۔ جو لوگ ان کے بے ربط خیالات کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے وہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں۔ مگر خان جو خود بھی جذباتی کردار رکھتے ہیں، آفریدی کے مزاج کو بخوبی انداز میں سمجھے۔ وہ آفریدی کی بے ربط باتوں کو سابق ’پارٹی اینیمل‘ کپتان، ہیرو، اینٹی ہیرو، ولن اور ایک بین الاقوامی کرکٹنگ ستارے کے طور پر آفریدی کے تجربات کو ایک مربوط رائے میں بدلنے میں کامیاب رہے ہیں۔

کتاب جب تنازع کی زد میں آئی تو مجھے ہرگز حیرانی نہیں ہوئی۔ آفریدی ظاہر ہے کہ آفریدی ہے، اس لیے مجال ہے کہ جھک جائے۔ ایک دوسرے ’بیڈ بوائے‘ اور جذباتی پاکستانی کھلاڑی شعیب اختر کی ہندوستانی صحافی کے ساتھ لکھی گئی اور 2011ء میں منظر عام پر آنے والی سوانح حیات ’کنٹروورشلی یوئرز‘ زیادہ مایوس کن اور حدود و قیود میں رہتے ہوئے لکھی گئی کتاب ہے، اس کے برعکس گیم چینجر میں کسی شخص کو بھی نہیں بخشا گیا۔

آفریدی کی پیدائش اگرچہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں پشتون گھرانے میں ہوئی لیکن وہ اپنی شناخت سرخ خون کراچی والے کے طور پر کرواتے رہے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں وہ بڑے ہوئے۔ وہ خوشی کے ساتھ نوجوانی کے دور میں شہر کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بدنام گلی کوچوں اور پسماندہ علاقوں میں مخالف گروہوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

آفریدی یہاں تک بھی بتاتے ہیں کہ وہ ایک موقعے پر ایم کیو ایم کے سخت مزاج لوگوں کے بہت زیادہ قریب آگئے تھے اور شاید ان کا انجام بھی وہی ہوتا جو 1990ء کی دہائی میں اس قسم کے دیگر لڑکوں کا ہوا، یعنی موت۔ بڑے بھائی کے ایک زوردار تھپڑ نے ان کے سارے حواس بحال کردیے۔

آفریدی کے مطابق کراچی کی گلیوں اور کلب کی کرکٹ کھلاڑیوں کو ہر مشکل صورتحال کا خود سے سامنا کرنے کے قابل اور سخت بنا دیتی ہے۔ اس قدر زیادہ سخت مزاجی اور تخلیقی صلاحیت پاکستان کے دیگر شہروں سے ابھرنے والے کھلاڑیوں میں نہیں پائی جاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ 1996ء میں محض 19 برس کی عمر میں تیز ترین سینچری بنا کر کیریئر کا جو شاندار آغاز کیا تھا اس کے لیے انہوں نے خود پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا تھا کیونکہ وہ پوری اننگ بے اختیار ہوکر کھیلی گئی تھی۔ یعنی جب انہوں نے 37 گیندوں پر چوکوں چھکوں کے ساتھ سینچری اسکور کی تو انہیں اس وقت کچھ ہوش نہیں تھا کہ وہ سری لنکن باؤلرز کو بے بس کرچکے ہیں۔ یہی وہ اننگ تھی جس کے بعد ان کے والد نے بھی اس کھیل سے متعلق ان کے جوش کو تسلیم کرلیا، حالانکہ پہلے ان کے والد کرکٹ کھیلنے پر انہیں مارا بھی کرتے تھے۔ یہاں وہ اس ریکارڈ کو بناتے وقت اپنی عمر 19 سال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا نے ان کی عمر 16 بتائی جو غلط تھی۔

کتاب اپنے آغاز سے ہی رفتار پکڑنا شروع کردیتی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ بطور بلے باز بھی آفریدی پہلی ہی گیند پر چھکا مارنے کی کوشش کے لیے جانے جاتے ہیں۔

لیکن آفریدی جیسے ہی سابق ساتھی کھلاڑیوں اور کوچز کا موضوع چھیڑتے ہیں تو چھکوں کی برسات شروع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر سابق کپتان اور کوچ جاوید میانداد اور وقار یونس پر سخت خیالات کا اظہار کیا ہے۔

آفریدی الزام لگاتے ہیں کہ 1999ء میں جب میانداد ٹیم کے کوچ تھے تو انہوں نے ان کا کیریئر مختصر کرنے کی کوشش کی۔ آفریدی میانداد کو خود غرض پکارتے ہیں اور ایک ایسا شخص قرار دیتے ہیں کہ جو ’اب بھی اس ماضی میں رہتا ہے جس میں انہیں باوقار بلے باز اور اسٹار کھلاڑی تصور کیا جاتا تھا۔

وہ وقار یونس کو ’ٹیربل کیپٹن‘ (بدترین کپتان) قرار دیتے ہیں جو 2003ء کے ورلڈ کپ کے دوران ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وقار یونس اتنے ہی بدترین کوچ بھی ثابت ہوئے۔ آفریدی وقار یونس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کو ’انا کی تکراریں‘ پکارتے ہیں، لیکن انہوں نے کتاب میں اس بات کو واضح بھی کردیا کہ بعد میں وقار یونس کے ساتھ ان کی صلح ہوجاتی ہے۔ آفریدی نے شعیب ملک کو بھی تباہ کن کپتان پایا، اور دیگر تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود بھی شعیب ملک کو کپتان بنانے کا الزام وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پر ڈالتے ہیں۔

آفریدی ایک اور من گھڑت خیال کو بھی کچلتے ہیں۔ جب یونس خان کپتان تھے تو اس وقت کئی کرکٹ صحافیوں کا بڑی حد تک خیال یہ تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کی رہنمائی آفریدی کر رہے ہیں۔ تاہم اس کتاب میں آفریدی اس کا الزام ایک دوسرے اسٹار پر عائد کرتے ہیں جس کا نام لینے سے انہوں نے گریز کیا ہے، مگر ان کی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جس کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ اسٹائلش بلے باز محمد یوسف ہیں۔ وہ یونس خان کی تعریف میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور دعوٰی کرتے ہیں کہ یونس ڈریسنگ روم کی سیاست کا نشانہ بنے، وہی سیاست جس نے آفریدی کی اپنی کپتانی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

اس کے بعد کتاب کا وہ حصہ آتا ہے جس میں آفریدی کہتے ہیں کہ انہیں سابق پاکستانی آل راؤنڈر عبد الرزاق نے محتاط کیا تھا۔ عبد الرزاق کو شک تھا کہ کوئی مشکوک بُکی سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے تعاقب میں ہے۔ آفریدی کے مطابق انہوں نے اس وقت کے پی سی بی چیئرمین اعجاز بٹ اور منیجر یاور سعید کو اس بات سے آگاہ کیا تھا لیکن انہوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ آفریدی نوجوان عامر کے کیریئر کو تباہی کے دہانے پر لانے اور پھر اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پکڑے جانے پر دھڑلے سے جھوٹ بولنے پر سلمان خان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

آفریدی کی کتاب میں واحد سچا ہیرو وسیم اکرم ہے جنہوں نے کتاب کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ آفریدی وسیم اکرم کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وسیم اکرم نے ایسے وقت میں انہیں ٹیم کا حصہ بنائے رکھنے پر کام کیا جب میانداد اور یونس نے انہیں باہر رکھنے کی مبینہ کوشش کی تھی۔

وہ کہتے ہیں اکرم اور یونس میں کبھی اچھے دوستانہ تعلقات نہیں رہے۔ جہاں شعیب اختر نے عمران خان کی کپتانی میں کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا کچھ ایسی ہی خواہش کا اظہار آفریدی بھی اپنی کتاب میں کرتے ہیں، بلکہ ان کا تو ماننا یہ ہے کہ اکرم نے خان سے بہت کچھ سیکھا کیونکہ خان کی ہی طرح انہوں نے کھلاڑیوں کو میدان سے باہر رہتے ہوئے جتنا دل چاہے اتنا دل کھول کر لطف اندوز ہونے کی اجازت دی، بس شرط یہ ہے کہ فٹنس متاثر نہ ہو اور اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے رہیں۔

آفریدی ان زیادہ تر پاکستانی کھلاڑیوں کی طرح شرمیلے نہیں جنہوں نے اپنی اپنی سوانح میں لکھا کہ یہ ’محظوظ ہونے‘ کا مطلب ہوتا کیا ہے۔ ہاں البتہ سابق کپتان مشتاق محمد کو ان کھلاڑیوں میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

آفریدی ’پارٹی کلچر‘ کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں نائٹ کلبز اور بہت ساری خواتین شامل تھیں۔ مگر 2005ء میں انضمام الحق کپتان بن گئے اور اس دوران انہوں نے مذہبی رسم و رواج کے مظاہرے کے ذریعے غیر مستحکم ٹیم میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ آفریدی اس کوشش کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے پارٹیاں کرنے کا سلسلہ ترک کرنے کی وجہ یہ کوشش نہیں تھی۔ بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے پارٹیوں میں جانا اس لیے چھوڑا کیونکہ مجھے پارٹیاں کرنا بہت زیادہ پسند تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ’شخصیت کافی لت آور‘ ہے اور حد سے زیادہ پارٹیاں کرنے کے باعث ان کی زندگی میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔

کتاب کا آخری دھواں دھار حصہ ایک دن سیاست میں قدم رکھنے کی ممکنہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ آفریدی جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف اور بینظیر بھٹو کے بارے میں کافی مثبت خیالات رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ کرکٹ کی کافی زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ نواز شریف اور بلاول بھٹو کی تعریف بھی کرتے ہیں، خاص طور پر اس موقعے کے بعد جب پی سی بی چیئرمین اعجاز بٹ کے ساتھ ان کی تکرار جاری تھی اور بلاول نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ان کی حمایت کی۔

آفریدی کے مطابق نواز شریف اور بلاول دونوں انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتے تھے، مگر آفریدی کو یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی۔ تاہم اس کتاب میں وہ سب سے زیادہ تعریف موجودہ وزیرِاعظم عمران خان کی کرتے ہیں۔ وہ خان کو ایک کھلاڑی اور فلاح انسانیت کے لیے کوشاں شخصیت کے طور پر کافی پسند کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک ایماندار آدمی ہیں۔ مگر آفریدی عمران خان کو یہ یاددہانی کروانے میں دیر نہیں کرتے کہ اگر ان کی اپنی پارٹی ’بے ایمان‘ ممبران سے بھری ہوئی ہو تو اس ایمانداری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

گیم چینجر ٹھیک ایسی سوانح ہے جس کی توقع آفریدی جیسے کردار سے کوئی بھی شخص کرنا چاہے گا۔ میں نے کتاب میں ہر بات پر کھل کر اپنی رائے دینے پر ان کی داد دی۔ وجاہت ایس خان نے جس انداز سے آفریدی کے اس طریقہ اظہار کو کاغذ پر اتارا ہے، میں نے اسے بھی قابل تعریف سمجھا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ایک عام سا کرکٹ مداح بھی پڑھ کر محظوط ہوسکتا ہے۔

کیا ہی بھلا ہوتا اگر وجاہت خان آفریدی کی یادوں اور باتوں کی دیگر ذرائع سے تصدیق یا فیکٹ چیکنگ کرلیتے، کیونکہ تحریر میں تواریخ اور کرکٹ کے نتائج کئی جگہوں پر غلط درج ہیں۔


کتاب کا نام: گیم چینجر

مصنف: شاہد آفریدی اور وجاہت ایس خان

پبلشر: ہارپر اسپورٹ، انڈیا

آئی ایس بی این: 9353026714-978

صفحات: 252


یہ تبصرہ ڈان اخبار کے بکس اینڈ آتھرز سیکشن میں 19 مئی 2019ء کو شائع ہوئی۔

Categories
Event

One Day Free Workshop for English Essay and Precis Composition

One Day Free Workshop based on English Essay and Precis Composition

Guest Speaker: Ghulam Fareed (24th CTP) Special Secretary Communication & Works Department

on 4th May 2019 (Saturday)

Timings: 12:00 pm to 6:00 pm
Venue: M. Aafreen CSS/PMS Institute
Sea Breeze Homes, D-2 Shershah Block, Behind Barkat Market, New Garden Town, Lahore (Near Crimson Events)

Reserve your seat at: 0321-4991005


About Best CSS Academy in Lahore

AAFREEN CSS/PMS ACADEMY ensures student’s confidence hard work along with commitment. Our faculty possesses the techniques required for a candidate to seek through FPSC screening process as they consider candidates and we are here to polish the gems FPSC requires. Our emphasis is on imparting officer’s material in the candidate’s soul and mind.

One Day Free Workshop for English Essay and Precis Composition

Categories
General PPSC

Questions Mistakes in PMS General Knowledge (GK) Paper 2019

An Open Letter to the Chairman PPSC (Punjab Public Service Commission)

To The Chairman,
P.P.S.C. ,
Lahore.

SUBJECT : QUESTIONS MISTAKES IN PMS GENERAL KNOWLEDGE (GK) PAPER 2019.

Respected Sir,

With due respect, I, on behalf of all the candidates appearing in PMS examination 2019, want to bring a very significant issue into your kind and favorable consideration.

Since we all are appearing in the competitive examination and it is the last attempt of many candidates, each mark plays an indispensable role in deciding the future of the candidates.

There were many mistakes in the General Knowledge (GK) paper held on 12th April, 2019.

I want to highlight two main questions with absolutely wrong options.
The questions are:

Categories
General

Woman SP Anoosh Masood Chaudhry Tops Performance Test

Anoosh Masood Chaudhry secured 1st position in Performance Test

In a first of its kind exercise conducted to judge the performance of senior supervisory police officers, Anoosh Masood Chaudhry, a policewoman heading the Model Town investigation wing, has secured 1st position among the SPs of all six divisions of the provincial capital by scoring 346marks.

SP Shahnawaz Khan 2nd and SP Naveed Irshad bagged third position

The Cantonment Division Investigation SP Shahnawaz Khan secured 2nd position with 323 marks, followed by the City Division SP Naveed Irshad who bagged the third position scoring 299 marks.

The positions were announced on the basis of the marks awarded by the Lahore`s Investigation Headquarters after analysing the crime data of the six police divisions of the city.

Categories
Articles General

این ٹی ایس  کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

[pukhto]

این ٹی ایس کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

کوئی بھی طالب علم جو یونیورسٹی میں داخلہ لینے یا ملازمت کا متمنی ہو، اسے این ٹی ایس  کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ این ٹی ایس، نیشنل ٹیسٹنگ سروس کا مخفف ہے اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امتحان کا ایک باقاعدہ نظام ہے جوکہ پاکستان میں بہت معروف ہے۔ اس نظام کے تحت یونیورسٹی میں داخلوں اور اداروں کی خالی اسامیوں کےلئے طلباءکی صلاحیتوں کو پرکھا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ قدرے مشکل ہوتا ہے اور اسے پاس کرنے کےلئے بہت محنت کی ضروری ہوتی ہے۔